شوال 3ھ میں احد کی جنگ پیش آئی,جب اللہ نے اشراف قریش کو غزوہ بدرمیں ہلاک کردیا,اورقریش کوایسی مصیبت لاحق ہوئی جس سے وہ کبھی دوچار نہ ہوئے تھے,توقریش نے انتقام لینا اوراپنی کھوئی ہوئی ہیبت کوبحال کرنا چاہا. چنانچہ ابوسفیان نے لوگوں کو رسول اللہ(صلى الله عليه وسلم) اورمسلمانوں کے خلاف بر انگیختہ کرنا اورلشکر جمع کرنا شروع کردیا, اس نے احابیش وحلفاء اورقریش کے تقریبا تین ہزارلوگوں کوجمع کرلیا, اوراپنے ساتہ عورتوں کوبھی لیکرآیا تاکہ اس طرح سے وہ پلٹ کربھاگ نہ سکیں,بلکہ ان عورتوں کی طرف سے دفاع کریں. پھر ان سب كے ساتھ مدینہ کی طرف متوجہ ہوا اوراحد پہاڑی کے قریب پڑاؤ ڈالا.
آپ (صلى الله عليه وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ طلب کیا کہ کیا انکے خلاف نکلا جائے یا مدینہ ہی میں باقی رہا جائے؟ آپ (صلى الله عليه وسلم)کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے نہ نکلا جائے ,اوراسی میں قلعہ بند ہوجائیں, پھراگرکافرمدینہ
تیزاندازوں پرجنکی تعداد پچاس تھی عبد اللہ بن جبیر کوامیربنایا اورانہیں اورانکے ساتھیوں کوحکم دیا کہ اپنےمرکز کو لازم پکڑے رہیں, اس سے ہرگزنہ ہٹیں, گرچہ پرندے انہیں(بقیہ مسلمانوں کو) اچکنے لگ جائیں. وہ لوگ لشکرکے پیچھے تھے, اورانہیں حکم دیا کہ مشرکوں پرتیراندازی کرتے رہیں, تاکہ وہ مسلمانوں پرپیچھے سے حملہ نہ کرسکیں.
لڑائی شروع ہوئی اورشروع دن میں مسلمانوں کو کافروںپرغلبہ حاصل رہا اورمشرکین شکست کھا کر بھاگنے لگے,یہاں تک کہ اپنی عورتوں سے جاملے , توجب تیراندازوں نے مشرکوں کی شکست کودیکھا تواپنے اس مرکز کوچھوڑدیا جسکا آپ (صلى الله عليه وسلم)نے حفاظت کرنے کا حکم فرمایا تھا, اورکہنے لگے: اے قوم کے لوگو! غنیمت". ان کے سردارنے انہیں رسول (صلى الله عليه وسلم) کے فرمان کویاددلایا لیکن انہوں نے اسکی طرف دھیان نہیں دیا, اور یہ گمان کربیٹھے کہ اب مشرکین دوبارہ پلٹ کر نہیں آئیں گے.چنانچہ وہ مورچے کو چھوڑکرمال غیمت سمیٹنےکے لیے چلے گئے. ادھرمشرکین کے گھوڑسوار دوبارہ لوٹے تودیکھا کہ تیراندازوں سے مورچہ خالی ہے تواسکوپارکرکےوھ
خودکی دوکڑیاں آپ (صلى الله عليه وسلم)کے چہرہ میں گھس گئیں تھیں جن کوابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے نکالا, اورمالک بن سنان جوابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کے والد تھے آپکے رخسارپے لگے خون کوچوس لیا , مشرکوں نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کوقتل کرنا چاہا مگراللہ نے مسلمانوں کی جماعت میں سے تقریبا دس لوگوں کوانکے بیچ حائل کردیا یہاں تک کہ وہ بھی قتل کردئےگئے,پھرطلح
اورشیطان نے زورسے چیخ لگائی کہ :"محمد قتل كردیے گئے,تویہ بات بہت سارے مسلمانوں کولگ گئی ,اوراکثرنے راہ فراراختیارکرلی, اوراللہ کاحکم توہوکرہی رہے گا.
پس رسول (صلى الله عليه وسلم)لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے ,اورسب سے پہلے خود کے نیچے سے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے پہچانا, تو انہوں نے زورسے پکارا:"اے مسلمانوں کی جماعت خوش ہوجاؤ, یہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)موجود ہیں, توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں اشارہ کیا کہ خاموش ہوجاؤ, مسلمان ان کے پاس اکٹھا ہوگئے اور انکے ساتھ سب اس گھاٹی کے پاس گئے جہاں پرآپ (صلى الله عليه وسلم) نے پڑاؤ ڈالاتھا, ان میں ابوبکر,عمر,علی, اورحارث بن صمہ انصاری وغیرھم رضی اللہ عنہم اجمعین تھے.
جب وہ پہاڑکے دامن میں پہنچے توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے ابی بن خلف کو ایک گھوڑے پرسوارآتے ہوئے پایا جوآپ کے قتل کے لئے آرہا تھا, پس آپ (صلى الله عليه وسلم)نے اس کو ایک نیزہ مارا جو اس کے گلے میں لگ گیا,چنانچہ وہ شکست کھاکراپنی قوم کےپاس لوٹ گیا,پھرمکہ واپس جاتے ہوئے راستے میں مرگیا.
آپ (صلى الله عليه وسلم)نے چہرے سے خون کودھویا, اورزخم کی وجہ سے بیٹھ کرنمازپڑھی. اورحنظلہ رضی اللہ عنہ شہید کردیےگئے,اوروہ اپنی بیوی سے جنابت کی حالت میں تھے, جب انہوں نے جنگ کی منادی سنی توغسل کرنےسے پہلے ہی نکل پڑے, چنانچہ انہیں فرشتوں نے غسل دیا.
اور مسلمانوں نے مشرکوں کے علمبردارکوقتل کردیا. اوراس جنگ میں ام عمارہ نسیبہ بنت کعب مازنیہ رضی اللہ عنہا نےسخت لڑائی کا مظاہرہ کیا, اورعمروبن قمہ کی تلوارکی مارسے سخت زخمی ہوگئیں.
مسلمانوں میں سے قتل ہونے والوں کی تعداد ستّر سے کچھ زائد تھی, اورمشرکوں میں سے تیئیس لوگ قتل ہوئے, قریش نے مسلمانوں کے شہیدوں کا بری طرح سے مثلہ کیا,اورمسلمانوں میں نبی(صلى الله عليه وسلم) کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کردئےگئے. ١
١. انظر:زادالمعاد(3/