Get Adobe Flash player

رمضان2ھ میں غزوہ بدرکبرى' پیش آیا,اسکاسبب یہ تھاکہ آپ  (صلى الله عليه وسلم)اپنے اصحاب کے ساتہ شام سے واپس آرہے قریش کےبڑے تجارتی قافلہ کے تعاقب میں تین سودس آدمیوں کولے کرنکلے, اور ابوسفیان جونہایت ہی ہوشیاروزیرک تھا اس قافلہ کی قیادت کررھاتھا.اسےجوبی ملتا اس سے مسلمانوں کی نقل وحرکت کے سلسلے میں پوچھتا رہتا یہاں تک کہ اسے مسلمانوں کے مدینہ سے نکلنے کا پتہ چل گیا, اوروہ بدرسے قریب ہی تھا,تواسنے قافلہ کے رخ کو مغربی سمت ساحل کی طرف موڑدیا,اوربدرکے پرخطرراہ کوچھوڑدیا, پھراسنے مکہ میں ایک آدمی کویہ خبردینے کے لیے بھیجاکہ انکے اموال خطرے میں ہیں اورمسلمان قافلہ پرحملہ کے لئے تیارہیں.

جب اہل مکہ کویہ خبرپہنچی توابوسفیان کی مدد کیلئے تیارہوگئےاوران کے سرداروں میں سےصرف ابولہب پیچھے رہ گیا, انہوں نےاردگرد کے قبائل کوبھی جمع کرلیا اور قریش میں سے صرف بنوعدی شامل  نہ ہوئے.

جب یہ لشکرجحفہ کے مقام پرپہنچا توانہیں ابوسفیان کے بچ نکلنے کی جانکاری ہوگئی اوریہ کہ وہ ان سے مکہ واپس جانے کا مطالبہ کرتا ہے.

لوگوں نےواپس جانے کاارادہ کرلیا مگرابوجہل نے انہیں قتال کےلئے سفرکوجاری رکھنے پر برانگیختہ کیا,توبنوزہرہ جوتین سوکی تعداد میں تھے واپس ہوگئے اورباقی لوگوں نے سفرکوجاری رکھا,اوروہ ایک ہزارتھے یہاں تک کہ انہوں نےبدرسے محیط پہاڑی کے پیچھےایک وسیع مکان میں پڑاؤڈالا.  

بہرحال رسول  (صلى الله عليه وسلم)نےصحابہ سے مشورہ طلب کیا , توانکے اندرجنگ کرنے اوراللہ کے راستہ میں قربان ہونے کے لئے عزم مصمم پایا,اس پرآپ کوبہت خوشی ہوئی,اورآپ (صلى الله عليه وسلم) نے ان سے کہا: "چلواورخوش ہوجاؤ ,اسلئے کہ اللہ نے مجھ سے دونوں گروہوں میں سے ایک کے حاصل ہونےکا وعدہ فرمایا ہے,اللہ کی قسم! میں ابھی ہی سے قوم کی ہلاکتوں کودیکھ رہا ہوں"

آپ  (صلى الله عليه وسلم)آگے بڑھے اوربدرکے سب سے قریبی چشمے پرپڑاؤ ڈالا, توحباب بن منذرنے آپ کومشورہ دیا کہ آگے بڑھیں اوردشمن کے سب سےقریب چشمہ کے پاس ٹہریں,تاکہ مسلمان ایک حوض میں اپنے لیے پانی جمع کرلیں گے اوربقیہ چشموں کو پاٹ دیں گے, تواس طرح دشمن كے لیےپانی کا ذریعہ نہیں رہ جائے گا.توآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے حباب بن منذر کے مشورے کے مطابق ہی کیا.

اورآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے سترہ رمضان جمعہ کی رات کوکھڑے ہوکرنمازپڑھنے میں گذاری, آپ اللہ سے روروکردشمن پرغلبہ ونصرت کے لئے دعا کرتے رہے.

اورمسند کی ایک روایت میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ہم نے دیکھا کہ تمام لوگ سوگئے تھے سوائے رسول  (صلى الله عليه وسلم)کے جوایک درخت کے نیچے نمازپڑھتے اوررو تے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی.

اوراسی مسند ہی کی روایت میں ہے کہ :" - بدرکی رات کو-  ہم لوگوں پربارش کی پھوارپہنچنی شروع  ہوئی, توہم لوگ درخت اورڈھال کے نیچے چلے گئے تاکہ پانی سے بچ سکیں , اوررسول (صلى الله عليه وسلم) نےاپنے رب سے دعا کرتے ہوئے رات گذاری,آپ کہتے تھے:"اگریہ مٹھی بھرجماعت ہلاک ہوگئی توآج  کے بعد کبھی تیری عبادت نہ ہوگی" اورجب فجرطلوع ہوگئی , توآپ نے پکارا:"نماز اے اللہ کے بندو!" تولوگ درخت اورڈھال کے نیچے سے آئے اوررسول (صلى الله عليه وسلم)نے ہمیں نمازپڑھائی اورقتال پرابھارا.

اللہ رب العالمین نے اپنے نبی اورمومنین کی اپنی طرف سے اور اپنے لشکر(فرشتوں) کے ذریعہ مدد فرمائی, جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے :] إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُرْدِفِينَ وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ[ (سورة الأنفال: 9- 10)

’’جب تم لوگ اپنے رب سے فریاد کررہے تھے, تو اس نے تمہاری سن لی, اورکہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کروں گا جویکے بعد دیگراترتے رہیں گے,اوراللہ نے ملائکہ کو محض تمہاری خوشی کےلئے بھیجا تھا,اورتاکہ اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان ملے,ورنہ فتح ونصرت تو صرف اللہ کی جانب سے ہوتی ہے,بے شک اللہ زبردست ,بڑی حکمتوں والا ہے"

اوراللہ تعالى' نے فرمایا: ] وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ[ (سورة آل عمران:123)

’’اوراللہ نے میدان بدرمیں تمہاری مددکی, جبکہ تم نہایت کمزورتھے,پس تم لوگ اللہ سے ڈرو,تاکہ تم (اللہ کی اس نعمت کا ) شکراداکرو."

اوراللہ نے فرمایا: ]  فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَى  [ (سورة الأنفال:17)

’’ پس تم لوگوں نے انہیں قتل نہیں کیا ,بلکہ اللہ نے انہیںقتل کیا, (اوراے میرے رسول!)آپ نے ان کی طرف مٹی نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی,,

پھرلڑائی مبارزت کے ذریعہ شروع ہوئی,توحمزہ رضی اللہ عنہ نے شیبہ کوقتل کیا ,اورعلی رضی اللہ عنہ نے ولید بن عتبہ کوقتل کیا,اورعتبہ بن ربیعہ مشرکین میں سے زخم خوردہ ہوگیا اورمسلمانوں میں عبیدۃ بن حارث کوزخم پہنچی.

پھرگمسان کی لڑائی شروع ہوگئی,اورمیدان کارزار گرم ہوگیا, اوراللہ نے مسلمانوں کی فرشتوں کے ذریعہ مدد فرمائی جوکافروں کوقتل کررہے تھے اورمومنوں کے دلوں کوتسلی واطمینان دلارہے تھے, اورابھی گھڑی بھرہی ہواتھا کہ مشرکوں کی شکشت ہوگئی اوروہ راہ فراراختیار کرنے لگے ,مسلمان انکا تعاقب کرکے انکو قتل کرنے لگے اورقیدی بنانا شروع کردیا,اس طرح سے کافروں کے سترلوگ قتل ہوئے جن میں سے : عتبہ ,شیبہ ,ولید بن عتبہ ,امیہ بن خلف ,اوراسکا بیٹا علی, اورحنظلہ بن ابی سفیان اورابوجہل بن ہشام وغیرہ تھے.

اوراسی طرح ستر لوگ قید کئے گئے.

غزوہ بدرکا نتیجہ یہ ہوا کہ اس سے مسلمانوں کی شوکت وقوت بڑھ گئی, اورمدینہ اوراسکے اردگرد میں انکا رعب ودبدبہ چھاگیا, اوران کا اللہ پربھروسہ مضبوط ہوگیا, اورانہیں یقین ہوگیا کہ اللہ اپنے بندوں کی کافروں کے خلاف مدد کرتاہےاگرچہ انکی تعدا د کم ہی کیوں نہ ہو, اورکافروں کی تعدا د ان سے بڑھکرکیوں نہ ہو. 

اسی طرح غزوہ بدرسے یہ بھی نتیجہ سامنے آیا کہ مسلمانوں میں جنگی مہارتیں پروان چڑھ گئیں, اور جنگ میں نئے اسالیب وتکنک سے متعارف ہوئے جیسے کرّوفر,دشمن کی محاصرہ بندی ,انہیں اسباب قوت اور برابرمقابلہ کرنےسے محروم کردینا وغیرہ.

منتخب کردہ تصویر

العهد المدني