Get Adobe Flash player

آپ  (صلى الله عليه وسلم)چالیس برس کی عمر میں جوکہ سن کمال ہے, بعثت ونبوت سے سرفراز ہوئے, چنانچہ بروزپیرسترہ رمضان کی رات کوغارحراء میں آپ پرفرشتہ نازل ہوا, اور آپ (صلى الله عليه وسلم) پرجب وحی نازل ہوتی توآپ (صلى الله عليه وسلم) پربہت گراں گزرتا,اور آپ کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا ,اورپیشانی پرپسینہ آجاتا.

جب فرشتہ نازل ہوا تواس نے کہا کہ پڑھ! توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے کہا:"میں پڑھا ہوا نہیں ہوں" توفرشتہ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کودبایا یہاں تک کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی قوت کو نچوڑدیا,پھراس نے کہا پڑھ! توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا :"میں پڑھا ہوا نہیں ہوں" تین مرتبہ اس نے کہا اورتینوں مرتبہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہی جواب دیا پھراسنے کہا کہ :"پڑھ اس رب کے نام سےجس نے تم کو پیدا کیا ,اس نےانسان کوبستہ خون سے پیدا کیا, پڑھ اورتیرارب باعزت ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا اورانسا ن کو وہ چیز سکھائی جس کا اسے علم نہیں تھا." 

آپ (صلى الله عليه وسلم)اس کےبعد خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس کانپتے ہوئے لوٹے , اورانہیں سا را ماجراسنایا , توخدیجہ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اطمینا ن دلایا , اور کہا: خوش ہوجاؤ, اللہ کی قسم! اللہ آپ کو ہرگزرسوا نہیں  کریگا, بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں , سچی گقنگو کرتے ہیں, کمزوروں  کے بوجھ اٹھاتے ہیں, محتا جوں کی خبرگیری کرتے ہیں,اورمہمان نواز ہیں اورزمانے کے مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت کرتے ہیں.

پھرخدیجہ رضی اللہ تعالى' عنہا آپ (صلى الله عليه وسلم) کو لے کرورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جوخدیجہ کےچچیرے بھائی تھے. انہوں نے دورجاہلیت میں عیسائیت اختیارکرلی تھی, اورعبرانی میں لکھنا جانتے تھے, انہوں نے انجیل سے عربی زبان میں جتنا اللہ نے توفیق دی لکھا, اس وقت وہ بہت بوڑھے اورنابینا ہوچکے تھے. خدیجہ نے کہا بھائی جان! اپنے بھتیجے کی بات سنیں, ورقہ نے کہا : بھتیجے! تم کیا دیکھتے ہو؟ توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے ساراواقعہ بیان کیا, ورقہ نے کہا :"یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نےموسى' علیہ السلام پرنازل کیا تھا. اے کاش میں اس وقت جوان ہوتا ,اے کا ش میں اسوقت زندہ ہوتا جب آپ (صلى الله عليه وسلم) کی قوم آپ کو نکال دے گی, توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا : "کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟" ورقہ نے کہا ہاں, جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لے کر آیا جس طرح تم لے کر آئے ہو اس سے ضرور دشمنی کی گئی.اگرمیں نےتمہارا زمانہ پالیا توتمہاری زبردست مدد کروں گا, اس کے بعد ورقہ کا جلد ہی انتقال ہوگیا. 

پھرکچہ وقفہ کے لئے وحی کا سلسلہ رک گیا. اورآپ (صلى الله عليه وسلم)کچھ دنوں تک یوں ھی ٹہرے رہے آپ (صلى الله عليه وسلم) کچہ بھی نہیں دیکھتے. آپ  (صلى الله عليه وسلم)اس سے غمزدہ ہوگئے, اوروحی کے نزول کے مشتاق ہوئے.

پھرفرشتہ آسمان وزمین کے بیچ کرسی پرنمودارہوا اورآپ (صلى الله عليه وسلم) کو تسکین دلائی اوریہ بشارت دی کہ آپ واقعی اللہ کے پیغمبرہیں, جب آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے اسے دیکھا توآپ اس سے خوف زدہ ہوگئے, اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے, اورکہنے لگے: "مجھے کمبل اڑھادو مجھے کمبل اڑھادو" تواللہ نے اس پریہ آیت کریمہ نازل فرمائی:  

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ  قُمْ فَأَنذِرْ  وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ[( سورة المدثر: 1-5) 

’’اے چادراوڑھنے والے اٹھئے اورلوگوں کو (ان کےرب سے) ڈرائیےاوراپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے, اوراپنے کپڑے پاک رکھئے, اوربتوں سے کنارہ کش ہوجائیے,,

اللہ رب العالمین نے ان آیات میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کواپنی قوم کوڈرانے اورانکواللہ کی طرف بلانے ,اوراللہ کی تعظیم وتکبیربیان کرنے اوراپنےنفس کو گناہ ومعاصی سے پاک کرنے کا حکم دیا ہے.

آپ  (صلى الله عليه وسلم)اس ذمہ د اری کی ادائیگی کے لیے کمربستہ ہوگئے اوریقین کرلیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ,اوراللہ کی اطاعت میں پورے طورسے لگ گئے,اللہ کی طرف کالے گورے,چھوٹے بڑے,مرد عورت ,آزاد غلام سب کو بلانے لگے. ہرقبیلہ کے کچہ لوگوں نے آپ کی دعوت پرلبیک کہا جن کواللہ نے دنیا وآخرت میں نجات دینا چاہا, اوراسلام میں پوری روشنی وبصیرت کے ساتہ داخل ہوگئے. تومکہ کے بیوقوفوں نے ان کوسزا وتکلیف دینا شروع کردیا, اوراللہ نے آپ  (صلى الله عليه وسلم)کو آپ کے چچا کے ذریعہ محفوظ رکھا, کیونکہ ابوطالب انکے نزدیک بہت ہی شریف اورقابل اطاعت تھے, انکی وجہ سے وہ لوگ رسول اللہ  (صلى الله عليه وسلم)کے کسی معاملہ میں دخل اندازی کی جرأت نہیں کرتے تھے. اسلئے کہ وہ ابوطالب کی رسول(صلى الله عليه وسلم) سے محبت کے بارے میں جانتے تھے,نیز ابوطالب انکے دین(کفر) پرہی تھے, اوراس چیزنے کفارمکہ کو آپ  (صلى الله عليه وسلم)کے ساتہ کھلم کھلا عداوت ودشمنی کرنے سے مانع رکھا اورانہون نے آپ  پر صبرسے کام لیا.

ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"آپ (صلى الله عليه وسلم) تین سال تک سری دعوت دیتے رہے,پھراللہ کا مندرجہ ذیل فرمان نازل ہوا:]  فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ[ (سورة الحجر:94)

’’پس آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کھول کربیان کردیجئےاورمشرکین کی پرواہ نہ کیجئے."

توآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے کھلم کھلا یعنی جہری دعوت دینی شروع کردی.

اورجب اللہ کامندرجہ ذیل فرمان نازل ہوا:]  وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ[ (سورة الشعراء: 214)

’’اورآپ اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرادیجئے."

توآپ (صلى الله عليه وسلم) نکلے اورصفا پہاڑی پر چڑھ کریہ آوازلگائی:"ہائے صبح کی بربادی!تولوگوں نے کہا کہ یہ کون چیخ لگارہا ہے؟ توانہوں نے کہا کہ محمد ! توسب لوگ آپ کے پاس اکٹھا ہوگئے توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے کہا کہ: "اے بنی فلاں !اے بنی فلاں! اے بنوعبدمناف !اے بنو عبد المطلب!" توسب لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے, پھرآپ نے فرمایا: " تم لوگوں کا کیا خیا ل ہے اگرمیں تمہیں اس بات کی خبردوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے وادی سے ایک لشکرتم پرحملہ کرنے والا ہے توکیا تم میری تصدیق کروگے؟ تو سب نے یہی جواب دیا کہ ہم نے آپ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا,   آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا :"  تومیں تمہیں ایک سخت عذاب کی آمد سے ڈرارھا ہوں" ,تواس پرآپ کا سگا چچا ابولہب بولا: تمہاری ہلاکت ہو,تونے ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا, پھراٹہ کرچلاگیا, تواس پراللہ کا یہ فرمان نازل ہوا: )تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ[ سورة المسد:1) 

" ابولہب کےدونوں ہاتھ غارت ہوں اور وہ خود غارت ہو." ...آخری سورت تک  (متفق علیہ)

منتخب کردہ تصویر