Get Adobe Flash player

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

رمضان میں نبی کریم  (صلى الله عليه وسلم) کا طریقہ سب سے اکمل طریقہ تھا,اورمقصود کے حصول کے اعتبارسے سب سے عظیم تھا, اورنفوس پربہت ہی آسان تھا.

رمضان کی فرضیت2ھ میں ہوئی تھی ,اورنبی (صلى الله عليه وسلم)  نے نوبرس رمضان کاروزہ رکھ کروفات پائی.

شروع ميں رمضان کے روزے رکھنے یااسکے بدلے روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا اختیاردیا گیا تھا, پھربعد میں روزہ رکھنے کو فرض قراردے دیا گیا, اور بوڑھےشخص اورعورت کے لئے ان کے روزہ پرعدم قدرت کی وجہ سے کھانا کھلانے کو مقررکردیا گیا, وہ یوں کہ دونوں روزہ نہ رکھ کرہردن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے.

مسافراورمریض کے لئے رخصت دی گئی ہےکہ وہ روزہ توڑدیں اوربعد میں قضا کریں.اسی طرح حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت جب اپنے نفس پرخوف وخطرہ محسوس کرے تو انہیں بھی یہی رخصت حاصل ہے(کہ افطارکریں اوربعد میں قضا کریں) لیکن اگرانھیں اپنے بچہ پرخوف کا اندیشہ ہو تو وہ قضا کے ساتہ ہردن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں گی اسلئے کہ انکا افطارکرنا مرض کیوجہ سے نہیں ہے, بلکہ صحت کی حالت میں ہے تواس کمی کو مسکین کو کھانا کھلانے کے ذریعہ پورا کردیا گیا, جیسے کہ شروع اسلام میں تندرست آدمی کے لئے  ہردن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلاکرافطارکرنا جائز تھا.

کثرت سے عبادت کرنا:

رمضان کے مہینے میں آپ  (صلى الله عليه وسلم) کثرت سے عبادت کرتے تھے اورجبریل علیہ السلام رمضان میں آپ (صلى الله عليه وسلم)   پرقرآن کا مدارست کرتے تھے اور جب آپ (صلى الله عليه وسلم)  جبریل سے ملاقات کرتے تو تیزہوا سے بھی زیادہ بھلائی کے کاموں میں سخاوت کرتے تھے ,آپ (صلى الله عليه وسلم)  لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے , اوررمضان میں سب سے زیادہ سخاوت کرتے تھے ,کثرت سے صدقہ واحسان, تلاوت قرآن, نماز, ذکراوراعتکاف کرتے تھے. 

آپ  (صلى الله عليه وسلم) رمضان میں جتنا عبادت کرتے تھے اتنا کسی اورمہینے میں نہ کرتے تھے یہاں تک کہ بسا اوقات آپ رمضا ن میں مسلسل (رات ودن) روزے سے رہتے تھے تاکہ اس کے دن ورات کے کچھ گھنٹے عبادت کے لیے بچت کرسکیں.

اورآپ (صلى الله عليه وسلم)  صحابہ کرام کو مسلسل روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے ,توصحابہ کرام کہتے کہ: "آپ تو مسلسل روزہ رکھتے ہیں ,توآپ  (صلى الله عليه وسلم) فرماتےکہ:" میں تمہارے جیسے نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں " اورایک دوسری روایت میں ہے:"میں اپنے رب کے پاس ہوتا ہوں وہ مجھے کھلاتا اورپلاتا ہے."[ متفق عليه ]  

آپ  (صلى الله عليه وسلم) نے امتیوں پررحم کھاکرصوم وصال سے منع فرمایا ہے اورسحرکے وقت تک وصال کو جائز قراردیا ہے.

صحیح بخاری میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی  (صلى الله عليه وسلم) سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ:"تم صوم وصال نہ رکھو, تم میں سے جوشخص وصال کرنا چاہے تو سحرکے وقت تک کرسکتا ہے"

تویہ سب سے منصفانہ وصال ہے اورروزہ رکھنے والے کےلئے سب سے سہل اورآسان ہے ,اوریہ درحقیقت شام کا کھانا کھانے کی طرح ہے مگرکچھ تاخیرسے. اس لئے کہ روزہ دارکے لئے دن ورات میں ایک بارکھانا کھانا ہے تواگراس نے سحرکے وقت کھایا تو گویا اسے اول شب سے آخری شب میں منتقل کردیا.

رمضا ن کے مہینے کے ثبوت میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کا طریقہ:

آپ  (صلى الله عليه وسلم) بغیرپختہ رویت ہلال یا کسی معتبرشاہد کے ثبوت کے بغیرروزہ نہیں رکھتے تھے, جیساکہ ابن عمررضی اللہ عنہ کی شہادت سے روزہ رکھا, اورایک مرتبہ ایک دیہاتی کی گواہی کی بنیاد پرروزہ رکھا, اوران دونوں کی خبرپراعتماد کیا, اور انہیں لفظ شہادت ( کی ادائیگی) کا مکلف نہیں بنایا.

پس اگروہ خبرہوتی تو آپ (صلى الله عليه وسلم)   رمضان میں خبرواحد پراکتفا کرتے ,اوراگرگواہی ہوتی تو گواہی دینے والے کو لفظ شہادت کا مکلف نہ بناتے,اوراگردونں یعنی رویت وشہادت نہ ہوتی توشعبا ن کے تیس دن کوپورا کرتے .

اوراگرتیس کی رات کو- چاند دیکھنے میں- بادل حائل ہوجاتا تو شعبان کے تیس دن مکمل کرتے, پھر روزہ رکھتے.

آپ (صلى الله عليه وسلم)  بدلی کے دن روزہ نہیں رکھتے تھے, نہ ہی آپ (صلى الله عليه وسلم)   نے اس کا حکم دیاہے ,بلکہ آپ (صلى الله عليه وسلم)  نے بدلی کیوجہ سے شعبان کے تیس دن مکمل کرنے کا حکم دیاہے , اور آپ (صلى الله عليه وسلم)   خود بھی ایسا کرتے تھے, اس لئے یہ آپ (صلى الله عليه وسلم)  کا فعل بھی ہے, اوریہ آپ (صلى الله عليه وسلم)  کا حکم بھی, اور یہ آپ (صلى الله عليه وسلم)  کے قول : "اگربدلی ہوجائے تو اس کا اندازہ کرو" کے مخالف نہیں ہے کیونکہ اندازہ وہ ایک متعین حساب ہے اور اس سے مراد: بدلی کی صورت میں مہینے کو پورا کرنا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں آپ (صلى الله عليه وسلم)  سے منقول ہے: " شعبان کی مدت کو پورا کرو."

رمضان کے مہینے کے خاتمے کے سلسلے میں آپ(صلى الله عليه وسلم)   کا طریقہ : 

آپ  (صلى الله عليه وسلم) کا یہ طریقہ تھا کہ رمضان کے روزے کی شروعات کے لئے ایک آدمی کی گواہی کا حکم دیتے اوراس سے فراغت پردوآدمیوں کی شہادت کوطلب کرتے تھے .

اورآپ  (صلى الله عليه وسلم) کے طریقہ میں سے تھا کہ جب عید کے وقت کے نکلنے کے بعد دوآدمی رویت ہلال شوال کی گواہی دیتے تو آپ انھیں روزه توڑدينےکا حکم دیتے اوراگلے دن اس کے وقت میں عید کی نماز اداکرتے.  

منتخب کردہ تصویر

انصُر نبيَّك وكن داعيًا