Get Adobe Flash player

صحبت حبیب صلى اللہ علیہ وسلم میں چالیس مجلسیں

آپ  (صلى الله عليه وسلم) پیرکے دن ماہ ربیع الاول کی دوتاریخ یا آٹہ یا دس یا بارہ تاریخ کو پیداہوئے, امام ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: صحیح بات یہ ہےکہ آپ عام الفیل کو پیداہوئے جیساکہ امام بخاری کے استاد ابراہیم بن منذر اور خلیفہ بن خیاط وغیرہ نے اس پر اجماع بیان کیا ہے. 

سیرت نگارعلماء کا کہنا ہےکہ: "جب آمنہ حمل سے ہوئیں تو کہا مجہے کوئی بوجھ نہیں محسوس ہوئی, اورجب آپ  (صلى الله عليه وسلم) پیداہوئے توآپ کے ساتھ ایک ایسی روشنی نکلی جس نے مشرق ومغرب کو روشن کردیا.

آپ  (صلى الله عليه وسلم) نے 25سال کی عمرمیں خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی, اوراس وقت خدیجہ چالیس سال کی تھیں,وہ اس طرح کی آپ (صلى الله عليه وسلم)  خدیجہ کے مال کی تجارت کرنے کے لئے انکے غلام میسرہ کے ساتہ ملک شام کی طرف روانہ ہوئے تومیسرہ    آپ کی صداقت وامانت کودیکھ کرششدروحیران رھ گیا اورآکراپنے آقا خدیجہ سے آپ  (صلى الله عليه وسلم) کے بارے میں سب کچہ بتا یا تو خدیجہ نے آپ  (صلى الله عليه وسلم) سے شادی کی رغبت کا اظہارکردیا, پس  آپ(صلى الله عليه وسلم)  نے ان سے شادی کرلی.

اعداء اسلام کی طرف سے برابریہ الزام رہا ہے کہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ ظلم کیا ہے اورانہیں برابرحقوق نہیں دیا ہے, اوراسے مردوں کی خدمت اورلطف اندوزی کا ساما ن کے طورپرپیش کیا ہے.

لیکن اس باطل کا پردہ آپ (صلى الله عليه وسلم)  کی طرف سے منقول باتوں کے ذریعہ فاش و بے نقاب   ہوجاتا ہے جیسے عورتوں کی تکریم, ان کی شان کو بلند کرنا, اسی طرح ان  سے مشاورت طلبی اوران کے ساتہ رفق ومہربانی اورتمام مواقف میں انصاف کرنا اورانہیں ہرطرح کے حقوق عطا کرنا وغیرہ جس کا ایک عورت اسلام سے قبل تصورتک نہیں کرتی تھی. 

بے شک نبی  (صلى الله عليه وسلم)نے شوہروں کو اپنی بیویوں پرخرچ کرنے کی رغبت دلائی ہے جیساکہ آ پ (صلى الله عليه وسلم) کا ارشاد ہے :" تم اللہ کی رضاکی خاطرجوبھی چیزخرچ کروگے اس پرثواب دیے جاؤگے حتی کہ تمہارا اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ہی ڈالنا کیوں نہ ہو." ( متفق علیہ)

بلکہ آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے خاندان(اہل وعیال)  کے نفقہ کو سب سے بہترین نفقہ قراردیا ہے آ پ(صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے: "سب سے بہتردیناروہ دینارہے جوآدمی اپنے اہل وعیال پرخرچ کرتا ہے. "(رواہ مسلم) 

آپ  (صلى الله عليه وسلم)چالیس برس کی عمر میں جوکہ سن کمال ہے, بعثت ونبوت سے سرفراز ہوئے, چنانچہ بروزپیرسترہ رمضان کی رات کوغارحراء میں آپ پرفرشتہ نازل ہوا, اور آپ (صلى الله عليه وسلم) پرجب وحی نازل ہوتی توآپ (صلى الله عليه وسلم) پربہت گراں گزرتا,اور آپ کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا ,اورپیشانی پرپسینہ آجاتا.

آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے میدان دعوت میں قدم رکھا اورنصیحت وموعظت کے راستے کواپنایا, اورارشاد ورہنمائی کے میدانوں میں گھسے  , اورلوگوں کواللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی طرف بلا یا, اور کفر وشرک , بتوں کی پوجا اورباپ داداؤں کی ڈگرسے دوررہے,اورلوگوں کو برائیوں کوچھوڑنے اورحرام کردہ چیزوں سے درورہنے کی دعوت کا حکم دیا , تو اس پرکچہ لوگ ایمان لائے اوراکثرنے آپ کی تکذیب کی.

 اللہ تعالى' کا ارشاد ہے: ] يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ[ (سورة المائدة:67)

’’اے رسول!آپ پرآپ کے رب کی جانب سے جو نازل کیا گیا ہے اسے پہنچادیجئے,اورارآپ نے ایسا نہیں کیا توگویا آپ نے اسکا پیغام نہیں پہنچایا,اوراللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا"

 ایمان کے لازمی تقاضہ میں سے آپ  (صلى الله عليه وسلم)سے محبت کرنا بھی ہے,اورمسلمان شخص اپنے نبی سے کیسے محبت نہیں کریگا جبکہ آپ ہی نورکے راستےاورایمان کی طرف اس کی رہنمائی, اورآگ اورکفرسےاس کی نجات کے سبب ہیں.

آپ  (صلى الله عليه وسلم)کا فرمان ہے :"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کےنزدیک اس کی اولاد,اس کے والدین اورتمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجاؤں." (متفق علیہ)

بے شک آ پ  (صلى الله عليه وسلم)کی نبوت کی عظیم ترین علامت قرآن عظیم ہے, وہ ایسی کتاب ہے جس کے ذریعہ اللہ رب العالمین نے عرب وعجم کوقیامت تک اس کے مثل پیش کرنے کا چیلنج کیا جیساکہ اللہ تعالى' کا ارشاد ہے :

] وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[  (سورة البقرة:23)

’’اوراگرتم شک میں ہو اس (کلام) کی طرف سے جو ہم نے اپنے بندے پراتاراہے, تواس جیسی ایک سورت لے کرآؤ اوراللہ کے علاوہ اپنے مددگاروں کوبلالو, اگرتم سچے ہو"

آپ (صلى الله عليه وسلم) بہت زیادہ عبادت ذکرواذکار, نمازروزہ, اوردیگرعبادت کی قسموں کوانجام دینے والےتھے, آپ کی عادت تھی کہ جب کسی عمل کوکرتے تو اس پرثابت رہتے, اوراس پرمداومت وہمیشگی کرتے. 

عائشہ رضی  اللہ عنہا فرماتی ہیں:"جب آپ (صلى الله عليه وسلم) سے رات کی نمازکسی تكليف یا اورکسی وجہ سے چھوٹ جاتی تو دن میں بارہ رکعت پڑھتے تھے." (مسلم)

منتخب کردہ تصویر

شعار كرسي المهندس عبد المحسن بن محمد الدريس للسيرة النبوية ودراساتها المعاصرة