Get Adobe Flash player

صحبت حبیب صلى اللہ علیہ وسلم میں چالیس مجلسیں

صحیح تر قول کے مطابق شوال 5ھ ہجری میں غزوہ احزاب پیش آیا جوغزوہ خندق کے نام سے مشہورہے. 

غزوہ کا سبب : جب آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہود بنی نضیرکو جنہوں نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے قتل کی ناپاک کوشش کی تھی,مدینہ سے جلاوطن کردیا, توان کے سرداروں کا ایک گروہ مکہ پہنچا,اورقریش کورسول (صلى الله عليه وسلم) کے خلاف جنگ کرنے پر ابھارتے اور اکساتے ہوئے انہیں اپنی مدد کا یقین دلایا توقریش تیارہوگئے,اورآپ (صلى الله عليه وسلم)سے قتال کے لئے ان کے ساتھ متحد ہوگئے, پھریہودی سرداروہاں سےنکل کربنوغطفان اوربنوسلیم کے پاس آئے اور انہیں بھی آمادہ جنگ کیا, چنانچہ وہ بھی تیار ہوگئے , پھروہ بقیہ قبائل عرب میں گھوم گھوم کرآپ (صلى الله عليه وسلم) سے جنگ کرنے کی انہیں ترغیب دی.

اسلام مطلق عدل وانصاف لے کرآیا ہے,جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:] إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ (سورة النحل: 90) 

’’ بے شک اللہ انصاف اوراحسان اوررشتہ داروں کو (مالی) تعاون دینے کا حکم دیتا ہے,اوربے حیائی اور ناپسندیدہ افعال اورسرکشی سے روکتا ہے, وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم اسے قبول کرو."

اوراللہ کافرمان :]   وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى[(سورة المائدة: 8) 

بے شک محمد  ﷺکے پاس کوئی تلوار نہیں تھی جسکے ذریعہ لوگوں کی گردنیں اڑاتے پھرتے رہے ہوں تاکہ لوگوں کوجبراً اسلام قبول کرائیں,قرآن کریم نے اس اصول کی نہایت ہی واضح انداز میں تردید کی ہے,اللہ کا فرمان ہے :]  لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ [ (سورة البقرة :256 ) 

’’دين میں کوئی زبردستی نہیں,,

اوراللہ نے فرمایا :  ]  أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ[ (سورة يونس: 99)

’’کیا آپ لوگوں کومجبورکریں گے تاکہ سب کے سب مومن بن جائیں,,

اوراللہ نے فرمایا : ) لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ[( سورة الكافرون:4)

سن 6ھ میں جب آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے عمرہ پے نکلنے کےلئے کہا توصحابہ کرام نے جلدی کی, آپ(صلى الله عليه وسلم) چودہ سوصحابہ کرام کے ہمراہ روانہ ہوئے اس حال میں کہ آپ کے ساتھ مسافر کے ہتھیاریعنی نیام بند تلوار کے اور کوئی ہتھیار نہیں تھا, آپ کے اصحاب اپنے ہمراہ (قربانی کے) اونٹ بھی لےگئے, جب قریش کو اس کا علم ہوا توانہوں نے آپ کومسجد حرام سے روکنے کے لیے جتھے جمع کرلیے.

 اسلام وفاداری ,عہدوپیمان اورمواثیق کے احترام کا مذہب ہے, اللہ کا فرمان ہے :]  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ [(سورة المائدة: 1)

’’اے ایمان والو! (اللہ سے کئے گئے) اپنےعہدوپیمان کوپورا کرو,,

نیزاللہ نے فرمایا : ] وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً[(سورة الإسراء:34)

’’ اورعہدوپیمان کوپوراکرو,بےشک عہدومیثاق کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھا جائیگا,,

اورفرمایا : ] الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللّهِ وَلاَ يِنقُضُونَ الْمِيثَاقَ [(سورة الرعد:20)

 صلح حدیبیہ کے اتفاق میں یہ بات وارد ہوئی تھی کہ خزاعہ رسول  (صلى الله عليه وسلم)کے حلیف ہوگئے اوربکرقریش کے عہد میں داخل ہوگئے . پھرخزاعہ کے ایک آدمی نے جب بکرکے ایک آدمی کوآپ (صلى الله عليه وسلم)  کی ہجومیں اشعار پڑھتے سنا تو اسکومارکرزخمی کردیا,تواس طرح سے انکے مابین برائی بڑھ گئی. اوربنوبکربنوخزاعہ سے لڑائی کرنے پرآمادہ ہوگئے,اورقریش سے مدد طلب کی توقریش نے ہتھیاراورجانوروں کے ذریعہ ان کی مدد کی.

اللہ رب العالمین نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو لوگوں سے عفوودرگزرکرنے کا حکم دیا ہے,جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:]  فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ[ (سورة آل عمران:159)

’’آپ محض اللہ کی رحمت سے ان لوگوں کے لئے نرم ہوئے ہیں,اوراگرآپ بدمزاج اورسخت دل ہوتے تووہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ,پس آپ انہیں معاف کردیجئے,اورانکے لئے مغفرت طلب کیجئے, اورمعاملات میں ان سے مشورہ لیجئے,,

اوراللہ نے ارشاد فرمایا : ]   فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ[ (سورة المائدة:13)

بچوں کے ساتہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی شفقت ومہربانی :

آپ  (صلى الله عليه وسلم)بچوں کے ساتہ بہت رحیم ومہربان تھے.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :"آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے حسن بن علی کا بوسہ لیا اورآپکے پاس اقرع بن حابس تمیمی بیٹھے ہوئے تھے,تواقرع نے کہا: "میرے پاس دس بیٹے ہیں میں نے ان میں سے کبھی کسی کو بوسہ نہیں لیا"توآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے ان کی طرف دیکھا پھرآپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: "جو دوسروں پررحم نہیں کرتا اسکے ساتہ رحم نہیں کیا جاتا." (متفق علیہ)

خادموں اورغلاموں کے ساتہ آپ  (صلى الله عليه وسلم)کی مہربانی ورحمت:

اسلام سے ماقبل خادموں اورغلاموں کے کوئی حقوق تھے نہ عزت وتکریم ,جب اللہ رب العالمین نے اسلام کے ذریعہ دنیا کوعزت بخشی توآپ (صلى الله عليه وسلم) نے ان سے ظلم وبربریت کا خاتمہ کیا,انکے حقوق کومتعین کرکے ان پرظلم کرنے والوں ,انکے نقائص وعیب جوئی کرنے والوں یاان پرلعن طعن کرنے والوں کو دردناک عذاب سے ڈرایا.

جودوسخا اورکرم وفیاضی اوررواداری میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کا کوئی ثانی نہیں تھا.

آپ  (صلى الله عليه وسلم)کی سخاوت وفیاضی ہردرجہ کی سخاوت کوشامل تھی,اورجس کا اعلی' درجہ اللہ کے راستہ میں سخاوت نفس تھی.جیساکہ کہا گیا ہے:

منتخب کردہ تصویر

La miséricorde et la compassion du Prophète (Salla Allahou Alaihi wa Sallam) dans sa prédication